دادو میں دو نوجوانوں پر فائرنگ، مقدمہ درج نہ ہونے پر ورثاء کا وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنے کا اعلان

دادو میں فائرنگ سے زخمی ہونے والے نوجوان لیاقت نیشنل اسپتال کراچی میں زیر علاج

 

کراچی (اسٹاف رپورٹر) – دادو میں دو نوجوان بھائیوں پر فائرنگ کا واقعہ سنگین رخ اختیار کر گیا، جب کہ متاثرہ خاندان کی جانب سے مقدمہ درج نہ ہونے پر وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ورثاء نے الزام عائد کیا ہے کہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (ڈی ایچ او) دادو ڈاکٹر امجد مستوئی کے کہنے پر ان کے بھائیوں پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔

متاثرہ خاندان کے مطابق، نوجوان میر میرانی اور علی جان پر دادو میں فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں دونوں شدید زخمی ہوگئے۔ انہیں فوری طور پر کراچی کے مقامی اسپتال، لیاقت نیشنل ہسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں داخل کیا گیا، جہاں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔

متاثرہ بھائی کے مطابق:

"حملہ بھی ہمارے بھائیوں پر کیا گیا اور مقدمہ بھی انہی کے خلاف درج کیا گیا۔ پولیس ہماری ایف آئی آر درج کرنے سے مسلسل انکار کر رہی ہے۔"

ورثاء کا دعویٰ ہے کہ ڈی ایچ او ڈاکٹر امجد مستوئی چونکہ پاسر ہیں، اس لیے پولیس ان کے اثر و رسوخ کی بنا پر انصاف فراہم کرنے سے گریزاں ہے۔ متاثرین نے حکومت اور اعلیٰ حکام سے فوری نوٹس لینے اور انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ورثاء کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے اور ڈاکٹر امجد مستوئی کو معطل کر کے گرفتار نہ کیا گیا تو وہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں گے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ:

"ڈاکٹر امجد مستوئی کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا کر ہماری طرف سے مقدمہ درج کیا جائے۔ بصورت دیگر، ہم سڑکوں پر نکل کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔"

حکومتی ردعمل اور پولیس کی خاموشی پر سوالیہ نشان

اس واقعے کے بعد دادو پولیس کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا، جب کہ واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا بھی مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مقامی سیاسی رہنما اس واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی