اسٹیوٹا میں اپرنٹس شپ پروگرام کے نام پر بھتہ خوری کا انکشاف
غیر متعلقہ افراد مبینہ طور پر سرکاری افسر بن کر کمپنیوں سے رقوم بٹورنے لگے – رقم سرکاری خزانے میں جمع نہیں ہوتی
کراچی (خصوصی رپورٹ – ظہور احمد سروہی) سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (اسٹیوٹا) میں اپرنٹس شپ پروگرام کے نام پر بڑے پیمانے پر بھتہ خوری اور مبینہ کرپشن کا انکشاف ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق مختلف صنعتی اور نجی کمپنیوں سے “انسپکشن فیس”، “رجسٹریشن چارجز” اور “پروگرام میں شمولیت کے نام” پر لاکھوں روپے وصول کیے جا رہے ہیں، جبکہ یہ رقم کسی سرکاری رسید یا ریکارڈ میں ظاہر نہیں ہوتی۔
جعلی افسران اور بروکر سرگرم
موصولہ اطلاعات کے مطابق اسٹیوٹا کے نام پر ایسے افراد سرگرم ہیں جن کا ادارے سے کوئی سرکاری تعلق نہیں، لیکن وہ خود کو افسر یا اتھارائزڈ نمائندہ ظاہر کرتے ہوئے کمپنیوں پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ بعض واقعات میں کمپنیوں کو باقاعدہ دھمکیاں دی گئیں کہ اگر رقم ادا نہ کی گئی تو ان کے ادارے کو اپرنٹس شپ لسٹ سے خارج کر دیا جائے گا یا محکمہ محنت کی جانب سے کارروائی کرائی جائے گی۔
افسران کی مبینہ خاموش حمایت؟
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس پورے عمل سے باخبر کچھ افسران بھی مبینہ طور پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، جبکہ کئی جگہوں پر “پرسنٹیج سسٹم” کے تحت حصہ بھی وصول کیا جاتا ہے۔ البتہ اسٹیوٹا کے اعلیٰ حکام کی جانب سے اس معاملے پر تاحال کوئی واضح وضاحت یا کارروائی سامنے نہیں آئی۔
صنعتی ادارے سراپا احتجاج
کراچی، حیدرآباد، سکھر اور دیگر شہروں کی متعدد فیکٹریوں اور کمپنیوں نے اس بھتہ خوری کے عمل پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کئی کمپنیوں کے نمائندوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ:
"ہم اپرنٹس شپ سسٹم کے خلاف نہیں، لیکن یہ سرکاری نظام نہیں بلکہ بلیک میلنگ مافیا بن چکا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یا تو بھتہ دو، ورنہ قانونی کارروائی کے لیے تیار رہو۔"
تحقیقات کا مطالبہ
صنعتی حلقوں نے سندھ حکومت، اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ، نیب اور محتسب اعلیٰ سندھ سے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسٹیوٹا جیسے ٹیکنیکل ادارے میں کرپشن کے سبب نہ صرف نوجوانوں کے روزگار کے مواقع متاثر ہو رہے ہیں بلکہ صنعت اور اعتماد دونوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ذرائع: پیپلز ٹی وی پاکستان